Post Page Advertisement [Top]

Jinnat or un ki Duniya جنات اور اُنکی دنیا



جنات    اور   اُنکی دنیا


یہ بات تو تقریبا سبھی جانتے ہوں گے کہ انسانوں کی طرح جنّات کو بھی اللہ نے خاص اپنی عبادت کے لیئے پیدا فرمایا ہے۔ جنات انسانوں کی طرح عقل و شعور رکھتی ہے اور یہ کہ انہیں فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو کسی بات کو مانیں یا چاہیں تو انکار کر دیں مگر روزِ قیامت ان کا بھی انسانوں کی طرح حساب ہوگا
جس طرح سے انسانوں کی اپنی دنیا ہے فرشتوں کی اپنی دنیا ہے اسی طرح جنات کی بھی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ یہ وہ تمام کام کرتے ہیں جو ہم انسان کرتے ہیں مگر اللہ تعالی نے جنات اور ان کی دنیا سے انسانوں کا پردہ رکھا ہوا ہے۔ یقینا آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال آتا ہوگا کہ ہم جنات کو کیوں نہیں دیکھ سکتے؟
اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کریں تو جنات کو اُن کی خواہش کے مطابق اللہ کریم نے انسانی آنکھوں سے مخفی رکھا ہوا ہے۔ اس لیئے ہمیں جنات ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے۔ اِس کے علاوہ علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ انسانی آنکھ کے اُوپر ایک ایسا پردہ ہمہ وقت تنا رہتا ہے جو انسانوں کی نِگاہوں سے دوسری مخلوقات کو پوشیدہ رکھتا ہے لیکن اگر یہ پردہ ہٹ جائے تو انسان جنات اور دوسری مخلوقات کو اِنہی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
سائنس اس بارے میں جو وضاحت کرتی ہے وہ یہ کہ انسان کا بصری نظام 3D تک محدود ہے تھری ڈائیمینشن جبکہ جنات ان سے باہر 4D کی دنیا میں رہتے ہیں۔ مجھے نہیں علم یہ بات کس حد تک درست ہے۔
خیر کچھ جانور ایسے ہیں جو جنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں جن میں کتے اور گدھے شامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ سائنس کی دنیا میں آج کل عجیب و غریب تجربات شروع کیئے گئے ہیں جنہیں جان کر یقینا ہر انسان کی روح کانپ اٹھے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اسے جھوٹ قرار دے۔
سائنس آجکل اس کوششوں میں ہے کہ آنے والے وقت میں ماں کے پیٹ میں ہی ایک ایسا انسان تخلیق کیا جائے جس میں مختلف جانوروں کی مختلف خصوصیات پائی جاتی ہو مثلاٙٙ جیسے میں نے بات کی جنات کو دیکھنے کی تو اس انسان میں کتے اور گدھے کی ڈیایناے شامل کروا کے اس قابل بنا دیا جائے گا کہ جنات کو اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ سکے گا اس کے علاوہ اس انسان میں چیتے کی چُستی و پھرتی، شیر کی دلیری اور اس جیسا مظبوط جگر، کچھوے کی ڈھال کی مانند اوپری کھال جیسا جسم، عقاب جیسی تیز نظر، کتے کی طرح دور سے ناگہانی حادثات کو بروقت جاننے کی صلاحیت جیسے وغیرہ خصوصیات شامل ہوں گی۔
اگر انہیں کوئی سپاہی تخلیق کرنا ہے تو اس کے موجود ڈی این اے سے خوف، ڈر اور رحم جیسی چیزیں نکال کر بے رحمی، بے خوفی اور دلیری ڈالی جاتی ہے۔ یہ سب سننے میں مذاق لگتا ہے مگر اس سب پہ تیزی سے کام چل رہا ہے اور یورپ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک اس دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دوڑ میں پیچھے رہ کر اپنا نقصان نہ کروا لیں۔ تصدیق کے لیئے آپ لوگ گوگل کا سہارا لے سکتے ہیں۔
مختلف تجربات ہو چکے ہیں جس کے نتائج بہت ہی بھیانک تھے اچھے بھلے بچے کو چار ٹانگوں والے کتے میں غلط تجربات کے باعث تبدیل کر دیا جاتا۔ جب بچوں کی مائیں یہ نتائج دیکھتی تو دوبارہ اپنے بچے کو ان کے حوالے نہ کرتی مگر ان سائنس دانوں کا دعوٰی تھا کہ وہ جلد ہی اپنے کام میں کامیاب ہو جائیں گے مگر سائنس دانوں کے لیئے ایسی مائیں تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو انہیں اپنے پیٹ میں بنتے بچے پہ تجربات کی اجازت دیں۔
اس تجربات کی خبریں جلد ہی پورے یورپ میں پھیلنے لگی جس کے بعد یورپ کے لوگ ان کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئیں اور انہیں لوگوں کو جھوٹے دلاسے دینے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم نے اس پر کام بند کر دیا ہے جو کہ درحقیقت اب بھی مخفی طور پر جاری و ساری ہے۔ خیر اس پر میں الگ سے ایک پوسٹ لگاوں گا امید ہے آپ لوگ اس میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔ ٹاپک کی طرف آتے ہیں
جب ایک جن کسی جانور یا انسان کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس پر تمام جسمانی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ ایک جن اپنی اصلی حالت میں دیوار کے آر پار تو جا سکتا ہے لیکن جب وہ کسی جانور یا انسان کی شکل اختیار کرتا ہے تب وہ اس چیز پر قادر نہیں رہتا کہ دیوار میں سے گزر جائے اور اگر اس دوران یہ جن انسان یا کتے کی شکل میں مر جاتا ہے تو حقیقتاٙٙ وہ جِن ہی مرا ہوتا ہے اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جنات جس مقام پر اپنی اصلی حالت تبدیل کر کے کسی جانور یا انسانی شکل اختیار کرتے ہیں تو دوبارہ اسی مقام پر آکر ہی وہ اپنی اصلی حالت میں آسکتا ہے وگرنہ نہیں۔
جنات کی پیدائش کے متعلق ہمیں احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں انسانوں سے بھی پہلے پیدا کر کے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب ایک انسان دُنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ 9 جنات بھی دُنیا میں پیدا ہوتے ہیں" جِس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ جنات کو انسانوں کے مقابلے میں نو گُنا برتری حاصل ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ تعداد نو گُنا سے کہیں ذیادہ ہوگی کیونکہ انسانوں کی اوسط عمر فی زمانہ ساٹھ برس ہے جبکہ بعض جنات کی عمر ہزار برس سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ اس لئے جب انسان اپنی طبعی عمر مکمل کرنے کے بعد انتقال کرجاتا ہے تب بھی جنات کی نشو نما کا عمل جاری رِہتا ہے جسکی وجہ سے اِن کی کثرت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چوتھی زمین کے اوپر اور تیسری زمین کے نیچے اتنے جنات ہیں کہ اگر وہ تمہارے سامنے آجائیں تو تمہیں سورج کی روشنی دکھائی نہ دے۔
ان کی تعداد کی بات ہو رہی تو ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک عورت کے ساتھ بیٙک وقت ایک شیطان جبکہ ایک مرد کے ساتھ دس شیاطین لگے رہتے ہیں جو اسے ہر وقت بہکاتے رہتے ہیں یوں مجھے سمجھ میں آرہا ہے کہ مرد ہوس کا پجھاری کیسے۔
جس طرح انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا اسی طرح جنّات میں سب سے پہلے ابلیس کو پیدا کیا گیا لہزا اسے ابو الجن یعنی جنات کا باپ بھی کہا جاتا ہے جبکہ بعض لوگوں کی اس بارے میں غلط فہمی رہتی ہے کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا۔
ساتھیوں جب ہم لفظ جن سنتے ہیں تو ہمارے تصور میں ایک ہی مخلوق صف آراء کھڑی نظر آتی ہے یعنی کہ سارے جن ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں جو کہ بالکل غلط بات ہے۔ آئیئے جنات اور اُن کی کچھ عجیب اقسام جان لیتے ہیں۔ ان کے کچھ اقسام کتابوں میں ذکر ہے اور کچھ مجھے یہاں وہاں سے ملے۔ میں بالترتیب ساری اقسام ایک ایک کر کے اُن کے نام سمیت بتاوں گا۔
(1) غول: یہ سب سے خطرناک اور خبیث جن ہے جو کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ جنگلات میں رہتا ہے مختلف شکلیں بدلتا رہتا ہے اور رات کے وقت دکھائی دیتا ہے اور تنہا سفر کرنے والے مسافر کو عموماً دکھائی دیتا ہے جو اسے اپنے جیسا انسان سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ اس مسافر کو راستے سے بھٹکاتا ہے۔
(2) سعلاة: یہ بھی جنگلوں میں رہتا ہے جب کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کے سامنے ناچنا شروع کردیتا ہے اور اس چوہے بلی کا کھیل کھیلتا ہے۔
(3) غدار: یہ مصر کے اطراف اور یمن میں بھی پایا جاتا ہے اسے دیکھتے ہی انسان بے ہوش ہو کر گر جاتاہے۔
(4) ولھان: یہ ویران سمندری جزیروں میں رہتا ہے اس کی شکل ایسی ہے جیسے انسان شتر مرغ پر سوار ہوتا ہے جو انسان جزیروں میں جا پڑتے ہیں انہیں کھا لیتا ہے۔
(5) مشق: یہ انسان کے آدھے قد کے برابر ہوتا ہے۔ دیکھنے والے اسے بن مانس سمجھتے ہیں۔ سفر میں ظاہر ہوتا ہے
(6) بعض جنات انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں اور انہیں تکلیف نہیں پہنچاتے ہیں۔
(7) بعض جنات کنواری لڑکیوں کو اٹھالے جاتے ہیں۔ (لیکن اُن سے کسی قسم کا برا/ غلط کام نہیں کرتے)
(9) بعض کتے کی شکل کے ہوتے ہیں اور بعض چھپکلی کی شکل میں ہوتے ہیں۔
(10) جنّی: یہ اپنی اصلی شکل و حالت میں رہتے ہیں انہیں نہیں دیکھا جا سکتا۔
(11) عامر: یہ جن انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں
(12) ارواح: یہ بچوں اور لوگوں کو ایذا اور تکلیف پہنچاتے ہیں
(13) شیطان: یہ جن برے ہوتے ہیں۔ یہ قسم غلیظ اور ناپاک جگہوں پہ بیٹھا کرتی ہیں لہزا انہیں خبیث بھی کہا جا سکتا ہے۔
(14) عفریت: جنات کی یہ قسم شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ طاقت کی مالک ہوتی ہے اِن کا ذکر ہمیں حضرت سلیمانؑ کے قصے میں بھی ملتا ہے جس میں عفریت جن نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کا تخت لانے کی پیشکش کی تھی۔
جنات اپنی صلاحتیوں کے اعتبار سے بھی تین قسم کے ہوتے ہیں ان میں ایک قسم ایسی ہوتی ہے جو ہٙوا میں اُڑتے پھرتے ہیں زمین پہ نہیں رہتے
دوسری قسم کے جن سانپ، کتوں یا کسی دوسرے جانور کی شکل میں زمین پر رہتے ہیں
تیسری قسم کے جن ایسے ہوتے ہیں جو کبھی قیام کرتے ہیں اور کبھی آگے بڑھ جاتے ہیں جنہیں بھوت پریت بھی کہا جاتا ہے اور یہ اکثر ایک جگہ پہ قابض ہو کر لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔
جہاں تک جنات کی شادی بیاں کا سوال ہے تو سورة الرحمٰن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ مومنوں کے لیئے جنت میں حوریں موجود ہوں گی جنہیں اس سے پہلے نہ کسی انسان نے چوا نہ ہی کسی جن نے"
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنات بھی ازدواجی تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ ایک روحانی علم کے حامل صاحب فرما رہے تھے کہ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کے ساتھ جنات نے جسمانی تعلق قائم کر رکھا تھا۔ وہ سبھی لوگ میرے پاس روحانی علاج کیلئے تشریف لائے تھے اور تمام معاملے سے باخبر تھے۔ اِن میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی۔ سب کے ساتھ ایک مسئلہ کامٙن تھا کہ جنسی تعلق کی ذیادتی کی وجہ سے اب اُن کی پنڈلیوں اور کمر میں شدید دَرد رہنے لگا تھا۔
اور آپ کو سُن کر شائد حیرت ہو کہ اُن میں کچھ مَرد و خواتین ایسے بھی تھے جو اِس تکلیف سے تو نجات حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ جِن یا جنی اُنہیں چھوڑ کر چلی جائے اُن کی خواہش تھی کہ آپ صرف اِس دَرد کا مداوا کردیں لیکن ایسا کوئی روحانی علاج نہ کریں کہ جسکی وجہ سے وہ جنات ہم سے خفا ہوجائیں۔ اُن صاحب کے مطابق جب میں نے اُن احباب سے اِس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو کچھ عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی۔ کچھ لوگوں کو اِس تمام معاملے میں لُطف محسوس ہونے لگا تھا کہ جنات رُوپ بدل بدل کر اِن کی سفلی خواہشات کی تکمیل کا سبب بن رہے تھے جبکہ کچھ لوگوں کو خزانوں، اور دفینوں کا لالچ دِیا گیا تھا جبکہ ایک خاتون نے مجھے یہ کہا کہ وہ مجھے ایسی باتوں کا علم دیتا ہے جسکی وجہ سے علاقے میں مجھے نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ساتھیوں مجھے خدشہ ہے یہ اسی علم کا حصہ نہ ہو جو الومیناتی تنظیم کو دیا گیا ہے اور یہ عورت کم علمی کی وجہ سے اسے روحانیت سمجھ رہی ہو بہر حال اس صاحب نے کہا کہ میں نے اُن لوگوں کو بارہا سمجھایا کہ یہ مِلاپ آپ کی زندگی کو تباہ کردے گا۔
آپکی ہڈیوں کا رس نِکال دے گا اور تمام جسم کو کھوکھلا کردے گا کیونکہ جنات کا عنصر آگ ہے جبکہ انسان ہَوا، پانی اور مٹی کا مرکب ہے۔ اس لئے یہ مِلاپ کسی بھی طرح انسانوں کے حق میں بہتر نہیں ہے اور شریعت مطہرہ میں بھی انسان اور جنات کا نہ اِس طرح مِلن جائز ہے اور نہ ہی نِکاح جائز ہے۔
ساتھیوں اب اگر جنات کی موت کی بات کی جائے تو انہیں بھی انسانوں کی طرح موت آتی ہے۔ سارے جنات پیدا ہوتے اور مرتے ہیں سوائے ابلیس کے جسے قیامت تک مہلت دی گئی ہے۔
خبیث جنات یعنی شیاطین غلاظت کی جگہوں پہ رہتے ہیں جیسے کہ کوڑا کرکٹ کی جگہ، بیت الخلا، شراب خانے یا کسی بھی گناہ کرنے کی جگہ۔
اس کے علاوہ ہم لوگوں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہم قبرستانوں کو بھی جنات کا مسکن سمجھتے ہیں رات اندھیری میں قبرستان پر سے گزرنے کو خطرے سے خالی نہیں سمجھتے یہاں تک کہ گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کے وقت بھی کچھ لوگ قبرستانوں کا رُخ اس خوف سے نہیں کرتے کیونکہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ سنسان قبرستانوں میں دوپہر کے وقت جن نمودار ہوتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ قبرستان سے محفوظ جگہ کوئی نہیں ہے۔ پرانے زمانوں میں جب کوئی مسافر رات کے وقت آرام کی نیت کرتا تو سب سے پہلے وہ مسجد کی تلاش کرتا اگر مسجد نہ ملتی تو پھر قبرستان ڈھونڈتا۔ ایک عالمِ دین کو میں نے خود کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم سفر میں ہو اور رات کا وقت آجائے تو چادر لے کر قبرستان میں گھس جاو اور رات وہاں قیام کرو تمہارے کسی بھی طرح کے نقصان کا میں ضامن ہوں۔
یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ کافر جنات یعنی شیاطین اور مسلمان جنات کے رہنے کی جگہیں الگ الگ ہیں۔ مسلمان جنات اونچی جگہیں جیسے کہ پہاڑ کی چوٹیاں وغیرہ پر رہتے ہیں جبکہ شیاطین غیر آباد، ویران اور سنسان جگہوں پر موجود ہوتے ہیں جس کا حوالہ ہمیں ایک حدیث میں ملتا ہے جس کے مفہوم کے مطابق ایک بار رسولؐ اللہ چند صحابہ کرامؓ کے ہمراہ ایک سفر پر تشریف لے جا رہے تھے اس دوران نبیؐ رفع حاجت کے لیئے تھوڑا دور تشریف لے گئے۔ کچھ دیر بعد صحابہ کرامؓ نے اسی جگہ سے شور و پکار کی آواز سنی۔ جب اللہ کے رسولؐ واپس آئے تو صحابہؓ نے اس بابت دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ تھا؟
حضورؐ نے فرمایا کہ کافر جنات اور مسلمان جنات کے بیچ جگہ کی بنیاد پر جھگڑا ہو رہا تھا کہ کون کہا رہے گا لہزا انہوں نے مجھے فیصلے کے لیئے کہا اور میں نے ان کے مابین فیصل کر دیا کہ مومن جنات کو اونچے علاقے یعنی پہاڑوں کی اونچائی والے حصے اور کافر جنات کو نیچے حصے یعنی سمندری جزیرے دے دیئے اور یوں دونوں فریق میرے فیصلے پر راضی ہو گئے۔
ساتھیوں شیاطین جنات بہت ہی بدصورت شکل کے ہوتے ہیں جن کا ذکر ہمیں قرآن میں بھی ملتا ہے مگر یہ بات یاد رکھیں کہ جنات کبھی بھی اپنی اصلی شکل میں نمودار نہیں ہو سکتے۔ حضرت امام شافعی رح نے فرمایا کہ اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ اس نے جن کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا ہے تو میں اس کی گواہی کو باطل قرار دیتا ہوں۔
اس کی وجہ جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ جنات درحقیقت اپنے اسی شکل و صورت کی وجہ سے ہی ہم سے پردے میں ہیں اگر انہیں ہماری نظروں میں ظاہر ہونا ہے تو کوئی اور شکل اختیار کر کے ہی ظاہر ہو سکتے ہیں وگرنہ جب بھی اپنی اصلی شکل میں ظاہر ہونے کی کوشش کریں گے غائب ہو جائیں گے۔
ساتھیوں جنات کو اللہ نے بے پناہ طاقتوں اور صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ ان کی رسائی پہلے آسمان تک ہے وہ وہاں تک اُڑ کے جا سکتے ہیں مگر دورِ نبوت میں جنات پر حکمتِ خداوندی سے آسمانی راستے بند کر دیئے گئے تھے جو کہ نبی آخر الزماںؐ کے دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد دوبارہ سے کھول دیئے گئے۔
اس کے علاوہ جنات بڑی بڑی تعمیرات بھی کرتے ہیں جس کا ذکر ہمیں حضرت سلیمانؑ کے دور میں ملتا ہے جب جنات کو اللہ نے سلیمانؑ کے تابع کر دیا تھا اور وہ بڑی بڑی عمارات، دیگیں اور حوض وغیرہ بنایا کرتے تھے۔
یہاں یہ بات بھی علم میں اضافے کی نیت سے شیئر کر دوں کہ جنات انسانوں سے کوئی دو ہزار سال پہلے اس دنیا میں آباد تھے اور اس وقت یہ شر و فتنہ میں مبتلا تھے اور مشرک ہو چکے تھے لہزا اللہ نے فرشتوں کی ایک جماعت ان پر بھیجی جنہوں نے ان سے جنگ کی اور انہیں ویران وادیوں، جنگلات، پہاڑی علاقوں اور ویران جزیروں پر قید کر دیا گیا جہاں یہ حضرت سلیمانؑ کے آنے تک قید رہے اور پھر حکمِ الٰہی سے حضرت سلیمانؑ کے دورِ حکومت میں دوبارہ آذاد کر دیئے گئے مگر انہوں نے جلد ہی دوبارہ سے لوگوں میں شر و فتنہ پھیلانا شروع کر دیا۔
ساتھیوں جنات کی ایک خصوصیت احادیث کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جنات انسانی جسم میں خون کی طرح دوڑ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دل میں کوئی بات سوچتے ہیں تو وہ بات جنات معلوم کر سکتے ہیں اور اُس کی بناء پہ وسوسے ڈالتے رہتے ہیں۔
آج ہمارے ہاں اسی طرح کے جعلی عاملین اور روحانی علاج کرنے والے جگہ جگہ موجود ہیں جو آگر آپ کو آپ کے دل کی بات بتا دیں تو آپ بےاختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ بابا تو بہت سچے اور پہنچے ہوئے ہیں جبکہ درحقیقت یہ سب کچھ ان شیاطین جنات کی بدولت ہوتا ہے اور ایسا کرنا کفر ہے ایسے کام کرنے والے لوگ خود بھی شیاطین سے کم نہیں ہیں۔
یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ جنات کو غیب کا علم بالکل نہیں ہوتا، وہ صرف وہی بیان کرتے ہیں جو آپ سوچ رہے ہو۔ اس سے پہلے آپ کے ذہن میں کیا چل رہا تھا یا مستقبل میں آپ کیا سوچیں گے اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
ساتھیوں جہاں جنات کو اللہ کی طرف سے بے شمار صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں وہیں ان جنات کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں مثلا شیاطین اللہ کے نیک بندوں کو نہیں بہکا سکتے اور اگر لڑائی کرنے پہ اتر آئیں تو اللہ کے نیک بندے ان پر غالب آجائیں اور اس بات کا ذکر میں الومیناتی کی سب سے پہلی تحریر میں کر چکا ہوں۔
یہ شیاطین باقاعدہ ولی اللہ سے خوف کھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ حضور اکرمؐ کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ حضورؐ اچانک سے ہنس پڑے۔ حضرت عمرؓ نے وجہ دریافت کی تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ شیطان اِسی راستے سے آرہا تھا لیکن جب اُس نے تمہیں دیکھا تو خوف کے مارے راستہ بدل دیا اسی بات پہ ہنس دیا۔
دوستوں جنات معجزات نہیں کر سکتے صرف شعبدے بازی کر سکتے ہیں نظر کو دھوکہ دے سکتے ہیں جس کا پتہ ہمیں حضرت موسٰیؑ کے قصے میں سامری نامی جادوگروں کا ملتا ہے جس سے یقیناٙٙ آپ سب بخوبی واقف ہوں گے۔
اس کے علاوہ جنات خواب میں بھی مختلف شکلیں لے کر آسکتے ہیں مگر اللہ اور اس کے آخری نبی حضرت محمدؐ کی شکل میں کبھی نہیں آسکتے۔
شیاطین کسی ایسی جگہ داخل نہیں ہو سکتے جہاں اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اوپر میں نے شیاطین کے رہنے کی کئی جگہوں میں ایک جگہ بیت الخلا بھی بتائی اسی وجہ سے ان شیاطین کو خبیث جنات بھی کہا جاتا ہے جس کے بعد یقینا آپ میں سے کوئی رات کے پہر بیت الخلاء جانے کی زحمت نہیں کرے گا😂


خیر گھبرانے کی کوئی بات نہیں جب ہم بیت الخلاء میں جانے کی دعا پڑھتے ہیں کہ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ


یعنی اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا/ لیتی ہوں ایذا پہنچانے والے نر اور مادہ شیاطین (جنوں) سے"
تو یہ دعا پڑھتے ہی سارے شیاطین بیت الخلاء سے نکل بھاگتے ہیں اور آپ جب تک بیت الخلاء میں ہیں یہ اندر نہیں آسکتے۔
ویسے یہ بات تو طے ہے کہ جنات بھی عقل و شعور رکھتی ہے اور جیسا میں نے کہا کہ ان سے سلیمانؑ کے دور میں بہت سے تعمیراتی کام لیئے گئے ہیں جس کا مطلب انسانوں کے مقابلے میں یہ بھی کچھ کم نہیں۔
ساتھیوں جنات اور انسان کی دشمنی آدمؑ کے پیدا کرنے سے بھی قبل کی ہے جس کا ذکر ہمیں احادیث سے بھی ملتا ہے کہ جب اللہ نے حضرت آدمؑ کا پتلا بنایا تو کچھ عرصے کے لیئے اسے چھوڑ دیا لہزا ابلیس جب اس کے سامنے سے گزرتا تو اس پُتلے کو ٹھکر لگا کر دیکھا کرتا تھا کہ یہ پتلا اندر سے کھوکھلا ہے لہزا اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ جو بھی مخلوق بننے والی ہے وہ بہت جلد بہکاوے میں آجائے گی اور کہتے ہیں کہ یہی سے وہ حضرت آدمؑ سے نفرت کرنے لگا اور سجدے سے انکاری ہو گیا کہ میں آگ کا بنایا ہوا ہوں اور یہ مٹی کا، آگ ہمیشہ اوپر کی طرف جاتی ہے جبکہ مٹی کو جہاں سے بھی چھوڑو نیچے کی طرف ہی جاتی ہے اس لیئے میں اس سے (آدمؑ) سے بہتر ہوں جبکہ وہ ابلیس شائد یہ نہیں جانتا تھا کہ آگ کو اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو تباہی مچ جاتی ہے۔ آگ جلاتی ہے راکھ کر دیتی ہے
جبکہ مٹی ٹھنڈک پہنچاتی ہے سبزہ اگاتی ہے رہنے کی جگہ دیتی ہے خیر اور بھلائی کے سارے کام مٹی سے ہی لیئے جاتے ہیں ابلیس کی یہ دلیل بہت کم عقلی پر مبنی تھی اور اس کی باتوں میں تکبر تھا اس لیئے مردود کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ ابلیس اور اس کی نسل انسانوں کی دشمن ٹھہری اور تاقیامت انسانوں کو صحیح راستے سے بہکاتی رہے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو جہنم پہنچا سکے اور اللہ کے سامنے سینہ تان کر بول سکے کہ میں نے کہا تھا نا میں انہیں گمراہ کروں گا۔
جنات کے مسکن کی بات کی جائے تو جنات ہمارے ساتھ اسی دنیا میں رہتے ہیں مگر یہ ویران، غیر آباد اور چٹیل میدانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ایسی جگہیں جہاں یا تو انسان سرے سے رہتے ہی نا ہو یا اگر رہتے بھی ہو تو تعداد میں کم سے کم ہو۔ اس کی ایک وجہ میرے ذہن میں یہ آتی ہے کہ چونکہ جنات انسانوں سے خوف کھاتے ہیں اس لیئے وہ ایسی جگہوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں انسانوں کی آبادی کم ہو اور ایک بار جنات کسی جگہ آباد ہو گئے اور کوئی انسان وہاں رہنے لگتا ہے تو اسے تنگ کرتے رہتے ہیں کہ بھئی یہ میری پراپرٹی ہے۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جنات انسانوں سے ڈرتے ہیں۔ فلمیں دیکھ دیکھ کے جو نقشہ جنات کا کھینچا گیا ہے اسے دیکھ کر تو کوئی بھی گمان کر سکتا ہے کہ جنات انسان سے نہیں ڈرتے جبکہ یہ بات مکمل غلط ہے۔ ایک جن انسان سے اتنا ہی خوف کھاتا ہے جتنا کہ ایک انسان مگر تب تک کہ جب تک انسان کا خوف جن پہ نہ کھل جائے۔
حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جتنا تم (انسانوں) میں سے کوئی شیطان سے گھبراتا ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے گھبراتا ہے لہذا جب وہ تمہارے سامنے آئے تو اس سے نہ گھبرایا کرو ورنہ تم پر سوار ہوجائے گا البتہ تم اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوجایا کرو تو وہ بھاگ جائے گا۔
انسانوں کی طرح جنات میں بھی مذاہب ہوتے ہیں فرقے ہوتے ہیں۔ اِن میں بھی محبت اور نفرت حسد و بغض اور شہرت وغیرہ کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ آپس کی محبت و نفرت کے علاوہ اِنسانوں سے بھی بغض، محبت یا نفرت کرتے ہیں۔ عموماً مسلمانوں کی چھتوں پر مسلمان جن رہتے ہیں جبکہ کُفار و بدمذہبوں کے گھر میں کافر و بد مذہب جنات رہتے ہیں۔
لیکن اگر مسلمانوں کے گھر میں فحاشی ُو یا اللہ کریم کا قطعی ذکر نہ کیا جائے تو یہ مسلمان جنات اُس گھر سے کُوچ کرجاتے ہیں اور اِن کے نہ ُونے سے کافر جن اُن گھروں پر قبضہ جمالیتے ہیں اور اہل خانہ کیلئے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اِس بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان گھروں میں مسلمان جِنوں کی موجودگی فائدہ مند ہوتی ہے کہ اِس طرح کم از کم شیاطین جنات اُن گھروں پر دھاوا نہیں بول سکتے۔
جس طرح انسانوں کو پریوں کے تذکرے سے اُنسیت محسوس ہُوتی ہے اِسی طرح جنات کو بھی بعض انسانوں سے خُوامخواہ کی محبت ہو جاتی ہے لیکن جس طرح انسانوں کو جنات کے تذکرے سے ہی ڈر محسوس ہونے لگتا ہے بالکل اِسی طرح جنات کو بھی انسانوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے۔ اِن کی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان اِن کی موجودگی کو محسوس نہ کرسکے لیکن حد سے ذیادہ قربت کی وجہ سے انسانوں کی چھٹی حس اُنہیں اِن کی موجودگی سے با خبر کردیتی ہے۔
بعض مرتبہ یہ انسانوں کو اغوا بھی کرلیتے ہیں۔ کتب تواریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بعض اوقات یہ انسانوں سے جنسی تسکین حاصِل کرنے کیلئے فزیکل ریلیشن شپ قائم کرلیتے ہیں لیکن میری ناقص معلومات کے مطابق اللہ کریم نے انسانون کو جنوں پر ایک فوقیت یہ بھی دی ہے کہ جنات انسانی عورت کو حاملہ نہیں کرسکتے۔ ورنہ آج دنیا کا ایک الگ نقشہ سامنے ہوتا اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بچیاں کنوار پن کے باوجود ماں بن جاتیں جبکہ انسانی مرد کا تعلق اگر کسی جنی سے قائم ہوجائے تو وہ جنی انسان سے ملنے کی وجہ سے حاملہ ہو سکتی ہے۔

ساتھیوں ابلیس روزانہ اپنا تخت سمندر کے پانی پر بچھاتا ہے اور وہاں اس کے تمام شیاطین اور چھیلے اکھٹے ہوتے ہیں اور دن بھر کے حالات اس کے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ کس کس طرح سے کس کس شخص کو بہکایا گیا۔ ابلیس کے نزدیک سب سے پسندیدہ کام میاں بیوی کے جھگڑے اور ان میں جدائی ہے۔اگر آپ نے میری الومیناتی کی دواری تحریر پڑھی ہو تو اُس میں میں' نے ایک قرآنی آیت شیئر کی تھی جا کا ترجمہ یہ بنتا تھا کہ بنی اسرائیل جادو کے زریعے میاں بیوی میں جدائی ڈھلواتے"
یہ کام جادو کے زریعے کیا جاتا تھا اور آپ تو جانتے ہوں گے جادو شیاطین کے زریعے کرایا جاتا ہے یہاں قرآنی آیت پہ اگر غور کیا جائے تو بھی واضح ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ کس قدر اہم اور بنیادی ہے کیونکہ اس کے ٹوٹنے سے محض دو بندے جدا نہیں ہوتے بلکہ دو خاندان اور آگے کی نسلیں متاثر ہو جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب ابلیس تخت لگاتا ہے تو اپنے چھیلوں سے پوچھتا ہے کہ بتاو بھئی کیا کارنامہ کر کے آئے ہو؟
تو ایک کہتا ہے حضور چوری کروا کے آیا ہوں ابلیس سر ہلا کے کہتا ہے اچھا کیا۔ دوسرے سے پوچھتا ہے تم کیا کر کے آئے ہو وہ کہتا ہے قتل کروا کے آیا ہوں۔ ابلیس سر ہلا کے کہتا ہے اچھا کیا۔ اسی طرح ایک ایک کر کے سب سے پوچھتا ہے اور کوئی کہتا ہے مار پیٹ کروا کے آیا ہوں کوئی کہتا ہے زنا کروا کے آیا ہوں مگر ابلیس ہر بار بس اتنا ہی کہہ دیتا کہ اچھا کیا یہاں تک کہ ایک لنگڑا شیطان کہتا ہے حضور میاں بیوی میں پھوٹ/ جدائی ڈال کے آیا ہوں
ابلیس اک دم خوش ہوتا ہے اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اُس کے پاس جاتا ہے اور شاباشی دے کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہتا ہے یہ ہے میرا دوست۔
ساتھیوں شیاطین کا کام ہر وقت انسان کو بہکاتے رہنا ہے لہزا ان سے بچنے کا واحد راستہ اِن کے پیدا کرنے والے سے ان کی پناہ مانگی جائے۔
ساتھیوں شیاطین انسانوں پر کئی طرح سے حملہ آور ہو سکتے ہیں جن میں انسان کا ناپاک رہنا یعنی غسلِ جنابت میں رہنا،  ذکر و اذکار نہ کرنا، اور اکثر اوقات برہنہ حالت میں بھی یہ آپ پر عاشق ہو کر آپ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ نے اِن میں بھی پس۔ دیدگی اور ناپسندیدگی کا مادہ رکھا ہوا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں جنات عورتوں پر زیادہ عاشق ہوتے ہیں وجہ جانتے ہوئے بھی میں لکھنے سے قاصر ہوں۔  اس کے علاوہ بعض اوقات کسی پرفیوم یا عطر کی خوشبوں بھی انہیں آپ کی طرف مائل کر سکتے ہیں لیکن بہت کم۔
انسان کی موت کے وقت انسان کی روح آنکھ،  ناک اور منہ سے نکلتی ہے اور انہی جگہوں سے جنات انسانی جسم میں داخل ہو کر انسانی جسم پر قبضہ کرتے ہیں اور ایک جگہ ناخن کا بھی ذکر ہے۔
دوستوں شائد آپ کو بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مسلمان انسانوں کے مقابلے میں کافر انسانوں پر جنات کے حملے کیوں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو وہ ہمہ تن غسلِ جنابت اور ہر طرح کی برائیوں میں رہتے ہیں اور دوسری چیز ایمان کی غیر موجودگی ہے۔ قرآن انسان کی رہنمائی کے لیئے اتارا گیا ہے اور اس میں شیاطین کے تمام حملوں اور ان سے بچنے کے تمام تر طریقے بتائے گئے ہیں اگر کمی ہے تو ہمارے ناقص عقائد کی۔
مجھ سے اگر کوئی غلطی،گستاخی یا بے ادبی ہوئی ہو تو میں اللہ پاک کی بارگاہِ رحمت کے حضور توبہ کرتا ہوں، اور مغفرت اور بخشش کا امیدوار ہوں۔ اللہ پاک ہم سب کے ساتھ اپنی رحمت اور فضل والا معاملہ فرمائے ۔

اللہ ہمیں شیاطین کے ہر شر و فتنے سے اپنے امان میں رکھیں ۔آمین یا رب العالمین
امید ہے آپ سب کو یہ معلوماتی سلسلہ اچھا لگا ہوگا
اپنی راۓ کا اظہار کمنٹس میں ضرور کیجیے گا
بہت شکریہ...
fortunetech.online,fortunetech,fortuneacademy

Bottom Ad [Post Page]